بہت سے لوگ جب اسلام پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں تو ان کو ہر دوسرا بندہ غلط اور جہنم کا مستحق لگنے لگتا ہے۔اور دوسروں کو ایسے طریقوں سے تبلیغ کی کوشش کرتے ہیں کہ اگلا بندہ دین سے ہی متنفر ہو جاتا ہے۔ہر شخص کے بارے میں لگتا ہے کہ یہ بندہ بہت گمراہ ہے اور میں بہت پارسا ہوں۔
پھر اگر تو ایسے لوگ علم حاصل کرنا جاری رکھیں تو اعتدال کی راہ پہ آ جاتے ہیں ورنہ ہر چیز میں انتہائی متشدد ہو جاتے ہیں ۔ان کو ہر دوسرا بندہ کافر یا یہود و ہنود کا پیروکار لگتا ہے۔ہر کسی کا پردہ ہر کسی کی نماز ہر کسی کے عمل میں غلطیاں نکالنا عادت بن جاتی ہے۔
اور اس عادت اور دوسروں کو حقیر جاننے کی وجہ سے تکبر اور ریا کاری جیسے خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ایسے لوگ یہ بات نہیں سوچتے کہ اللہ تعالی نے تو ایک طوائف کو کتے کو پانی پلانے پہ بخش دیا۔سو قتل کرنے والے کو بخش دیا اور ایک نیک عورت کو بلی پہ ظلم کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا
تو وہ تو بے نیاز ہے۔اسکی رحمت تو وسیع ہے۔وہ جس کو چاہے بخش دے جس کو چاہے سزا دے۔
اس لیے خواہ عمل زیادہ ہو یا کم دوسروں کے معاملے میں ڈرتے رہنا چاہیے۔ایسے طریقے سے تبلیغ نہ کریں کہ دوسرے کو محسوس ہو کہ وہ کوئی حقیر انسان ہے۔اور تبلیغ کے لیے بھی حکمت لازمی ہے،نرمی لازمی ہے۔
اس لیے خواہ عمل زیادہ ہو یا کم دوسروں کے معاملے میں ڈرتے رہنا چاہیے۔ایسے طریقے سے تبلیغ نہ کریں کہ دوسرے کو محسوس ہو کہ وہ کوئی حقیر انسان ہے۔اور تبلیغ کے لیے بھی حکمت لازمی ہے،نرمی لازمی ہے۔
تکبر سے پرہیز کریں ۔چاہے ہم کتنے ہی نیک اعمال کر لیں لیکن اگر نیت خالص نہیں ہو گی تو ہمیں ان اعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
آخری بات:پارسائی کا دعوی کرنے والے اکثر پارسا نہیں ہوتے۔
آخری بات:پارسائی کا دعوی کرنے والے اکثر پارسا نہیں ہوتے۔